تازہ ترین معلومات

میانوالی میں ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات دریافت


میانوالی: مالاخیل کے علاقے میں ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات ملے ہیں جو نہایت واضح ہیں مگر اب ان کے مٹنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔
مالاخیل کے پاس بروچ نالے کے مقام پر جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر صادق ملکانی نے 2006 میں اس جگہ پر ڈائنوسار کے قدموں کے ایسے نشانات دریافت کیے جن سے اس عظیم جانور کے کسی سمت میں گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔ اسی لحاظ سے ان نشانات کو رہ گزر بھی کہا جاسکتا ہے۔
گویا 16 کروڑ سال قبل میانوالی کے علاقے میں ڈائنوسار کا راج تھا جس جگہ ڈائنوسار کے پیروں کے نشانات ثبت ہیں وہ کبھی ہموار ہوا کرتی تھی مگر کروڑوں سال کے عرصے میں اٹھ کر ایک ڈھلوانی دیوار کی طرح ہوگیا ہے۔ یہاں کی زمین وسط جیوراسک دور سے تعلق رکھتی ہے۔ صادق ملکانی نے بتایا کہ یہاں ایک سبزہ خور سوروپوڈس اور گوشت خور تھیروپوڈ جانورکے پیروں کے نشانات ملے تھے۔ ان نشانات کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ گوشت خور جانور سوروپوڈ پر حملہ آور ہوا تھا۔

لیکن افسوس کہ اب ٹریکٹروں اور دیگر مشینوں کی وجہ سے تھیروپوڈ کے نشانات مٹ چکے ہیں کیونکہ یہاں سے کوئلہ نکالا جارہا ہے اور اسی سرگرمی سے کروڑوں سال سے محفوظ ایک عظیم خزانہ تباہ ہوچکا ہے۔ مگر دوسرے ڈائنوسار کے درجن بھر نشانات قدرے بلندی پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
صادق ملکانی نے اس مقام پر ڈائنوسار کے قدموں کے 15 نشانات دریافت کیے تھے جو 1500 مربع فٹ پر بکھرے ہوئے تھے۔ ملکانی کے مطابق دونوں اقسام کے ڈائنوسار ایک ہی جگہ موجود تھے اور شاید بھوکے اور خونخوار تھیروپوڈ نے گھاس پھوس کھانے والے ٹائٹانوسورین سوروپوڈس پر حملہ کیا اور ان کے پیروں کے نشانات وقت کی مٹی میں نقش ہوکر رہ گئے تھے۔
قدموں کے یہ نشانات پوری دنیا میں سب سے گہرے ہیں۔ سوروپوڈ کا پیر 7 سینٹی میٹر اور تھیروپوڈ کا پاؤں 10 سینٹی میٹر گہرائی تک ہے۔ ایک زمانے میں یہ جگہ کسی جنگل سے کم نہ تھی اور اسی لیے آج یہاں بہترین معیار کا کوئلہ موجود ہے ۔
اسی مقام پر قدیم سمندری جانور ایمونائٹس اور بیلمنائٹس کے فاسلز بھی بکثرت ملتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کروڑوں سال قبل میانوالی سمندر کے قریب موجود تھا۔ صادق ملکانی نے اپنی تحقیق کو باقاعدہ ایک جرنل میں شائع کرایا ہے۔ اس کے علاوہ چین اور امریکا کے سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات ہیں۔
قدموں کے نشانات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ شکاری تھیروپوڈ تیز دانتوں والا جانور تھا جس کی اونچائی 10 سے 12 فٹ اور وزن 8 سے 10 ٹن تک تھا۔ جب کہ سوروپوڈ بڑے جسم اور چھوٹے سر کا مالک تھا۔ سر سے پیر تک اس کی لمبائی 30 فٹ اور وزن 30 ٹن تک تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈائنوسار کے باقی رہنے والے نشانات کو بچایا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی اسے دیکھ سکیں۔ صادق ملکانی کے مطابق اس جگہ مزید کھدائی اور تحقیق کے بعد دیگر کئی خزانے بھی سامنے آسکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

معلومات پوائنٹ کاپی ر ائیٹ © 2016

Bim کی طرف سے پیش کردہ تھیم کی تصویریں. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.