تازہ ترین معلومات

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زندگی کاداقع

 حضرت مسور بن مخرمہؓ بیان کرتے ہیں ، جب حضرت عمرؓ زخمی کردیے گئے تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے، اس پر ابن عباسؓ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے عرض کیا: امیر المومنین! آپ اتنی تکلیف کا کیوں اظہار کر رہے ہیں؟ آپ نے رسول اللہ کی صحبت اختیار کی اور اسے اچھے انداز میں نبھایا، پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ پر راضی تھے ، پھر آپ ابوبکرؓ کی صحبت میں رہے، اور ان کے ساتھ بھی خوب رہے پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ پر راضی تھے۔ انہوں نے فرمایا: تم نے جو رسول اللہ کے ساتھ اور آپ کے راضی ہونے کا ذکر کیا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ایک احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے اور تم نے جو ابوبکرؓ کے ساتھ اور ان کے راضی ہونے کا ذکرکیا ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ایک احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے اور رہی میری گھبراہٹ اورپریشانی جو تم دیکھ رہے ہو تو وہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں فکر مند ہونے کی وجہ سے ہے اللہ کی قسم! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو میں اللہ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات حاصل کرتا۔ (بخاری)حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ جب حضرت عمرؓ کو ( شہادت کے بعد) ان کی چار پائی پر ڈالا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے دُعا اور مغفرت طلب کرنے لگے۔نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ حضرت علیؓ تھے۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کے لئے دعائے رحمت کی اور (ان کی نعش کو مخاطب کر کے) کہا ، آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جاملوں ، اور خدا کی قسم مجھے تو(پہلے سے ) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں ابو بکر اور عمر گئے۔ میں ابو بکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے“۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

معلومات پوائنٹ کاپی ر ائیٹ © 2016

Bim کی طرف سے پیش کردہ تھیم کی تصویریں. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.